چین کے صنعتی شہر ووہان میں کورونا وائرس کے پھیلنے سے نا صرف لوگوں کے چین سے باہر جانے پر پابندیاں لگا دی گئیں بلکہ برآمد ہونے والے سامان کی ترسیل بھی روک دی گئی ۔جس سے چین کو اربوں ڈالرز کا خسارہ ہو رہا ہے ۔سردی ،فضائی آلودگی اور پریشان کن حالات اور نڈھال کر دینے والی روزگار کی مصروفیات نے وہاں کے لوگوں میں کورونا وائرس پیدا کئے اور دھوپ کے نہ ملنے ،غیر فطری طرز رہائش نے اس وائرس کی افزائش میں اپنا کردار ادا کیا ۔
اس مرض میں مبتلا افراد بظاہر نزلہ ،زکام ،کھانسی اور بخار کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں ۔پورے شہر میں خوف و ہراس کی فضا اس پر مستزاد۔
اس کی وجوہات میں سر فہرست وہاں کے باشندوں کی خوراک میں کیڑے مکوڑوں سے لے کر کتے ،بلی ،چوہے اور چمگادڑ تک کا شامل ہو نا بتایا جا رہا ہے ۔
لیکن وہ یہ سب تو کب سے کھاپی رہے تھے ۔انہوں نے یہ سب کچھ اب نیا نیا تو کھانا شروع نہیں کیا ہے ۔
تو اس کی اصل وجوہات کیا ہو سکتی ہیں ۔ایک بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ اس مرض کا وبائی صورت اختیار کرنے کی ایک وجہ وہاں کے لوگوں کے جسمانی مدافعتی نظام کمزور ہونا ہے ۔اب اس کی جو بھی وجوہات ہوں اُن کا تدارک کیسے کیا جائے اور جو لوگ اس مرض کا شکار ہو گئے ہیں اُن کا علاج کیا ہو سکتاہے؟
کرومو پیتھی اس مسئلے کے جو حل تجویز کرتی ہیں اُن میں طرز رہائش کی اصلاح بہت ضروری ہے ۔
سب سے زیادہ ضروری بات یہی ہے کہ کام اور رہائش کی جگہ پہ روشنی اور تازہ ہوا کا انتظام اچھا ہو ۔اگر فوری طور پر ایسا ممکن نہ ہو سکے تو کھلی جگہ پہ تازہ ہوا اور دھوپ میں کچھ وقت ضرور گزارا جائے ۔اگر کوئی اس مرض میں مبتلا ہو جائے تو گھبرانے کے بجائے اس کا دلجمعی اور مستقل مزاجی سے علاج کرنے پر توجہ دی جائے ۔اس کے ساتھ ساتھ نارنجی شعاعوں میں چارج کئےہوئے تیل سے سینے اور پسلیوں پہ دن میں تین چار بار مالش کی جائے ۔
نارنجی شعاعوں میں تیار کئے گئے پانی کو دو دو اونس ،دن میں چار پانچ بار پلایا جائے ۔ساتھ میں نیلے رنگ کے بلب کی روشنی سر پر آدھ آدھ گھنٹے کے لئے تین چار بار ڈالی جائے ۔بلب ساٹھ واٹ کا ہویا ایل ای ڈی بلب ہو اور سر سے اُس کا فاصلہ ڈیڑھ دو فٹ رکھا جائے تو ایک ہفتے میں ہی بہت اچھے نتائج مرتب ہونے کی توقع ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ مریض کو آدھ آدھ گھنٹہ ،دو تین بار غسل آفتابی یعنی سر کو بچا کر باقی بدن پر دھوپ لینا چاہیے۔
نارنجی شعاعوں سے جسم کے اعصابی نظام کو طاقت ملتی ہے اور پھیپھڑے درست کام کرنے لگتے ہیں ۔اس سے آکسیجن کو خون میں شامل ہو کر جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے کا موقع ملتاہے ۔جسم میں آکسیجن کو جذب کرنے کا درست اور صحیح طریقہ مناسب انداز میں پورا ،گہرا اور بھر پور سانس لینے کی عادت اپنانا ہی ہے ۔ہم اتھلا اور سطحی سانس لینے کی عادت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے آکسیجن کو خون میں شامل نہیں ہونے دیتے ۔
جب پھیپھڑے پورا کام نہیں کرتے تو آکسیجن بھی پوری طرح ہمارے دوران خون میں شامل نہیں ہو پاتی ۔جب جسم میں آکسیجن کی مقدار ایک حد سے کم ہو جاتی ہے تو جسم کا مدافعتی نظام بھی کمزور ہونے لگتاہے ۔
ان سب باتوں سے بچاؤ کا واحد حل یہی بنتاہے کہ ہم جیسے تیسے بھی ہو سانس کی کوئی ایک دو مشقیں کرنا اپنا معمول بنالیں ۔وقت مقرر کرکے دن میں دو تین بار پندرہ پندرہ منٹ ،آرام آرام سے ناک سے سانس اندر لیں ،جتنی دیر بھی سہولت سے روک سکیں اُسے روکیں اور پھر آہستہ آہستہ منہ سے نکال دیں۔ تیس پینتیس سانس لے کر دیکھیں ۔اگر اس طرح چند روز مشق کرنے کے بعد باقی دن میں بھی جتنا ہو سکے گہرا اور پورا سانس لینے کی کوشش کی جائے تو چند ہفتوں میں ہی صحت میں واضح فرق محسوس ہونے لگے گا۔
You need to take part in a contest for one of the highest quality websites on the net. I most certainly will highly recommend this website!